تلقین اذکار
ذکر جہر کا اثبات
ذکر دو طرح ہوتا ہے (۱) ذکر جہری (۲) ذکرسری۔ جہری اورسری میں مشائخ کااختلاف ہے،بعض جہر کو فضیلت دیتے ہیں بعض سر کو، اور بعض جہر سے منع کرتے ہیں۔
لیکن ذکرجہر کتاب وسنت و روایات اور فقہ وعمل مشائخ سے ثابت ہے۔ آیت کریمہ:۔
اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعاً وَّخُفْیَۃً
اپنے رب سے دعا کرو گڑگڑاتے اور آہستہ۔
یہاں تضرع سے مراد بدن کو ذلیل کرنا ہے،اور خفیہ سے مراد اخلاص دل ہے۔ یاتضرع سے مراد زاری اور خفیہ سےمراد خوف کرنا ہےجیساکہ قاموس میں ہے۔
حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ ”بعض احکام قرآن مقتضائے وقت پر مبنی ہیں، مشرکین نبی ﷺ اور ان کےاصحاب کو قرآن پڑھنےسے روکتے تھے۔مگرفجر کے وقت نیندمیں ہوتے تھے۔اور مغرب وعشاء کے وقت میں کھیل کود میں مصروف ہوتے تھے۔ اس لیے فجر، مغرب و عشاء کے وقت میں جہر کا حکم دیا گیا۔البتہ ظہر اور عصر کفار کے وقت کفار کے آزار کے خوف سے قرأت خفی کا حکم ہوا ضعف اسلام کے وقت
لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْن
تمہیں تمہارا دین اور مجھے میرا دین
کا فرمان تھا۔ اور اتمامِ نعمت کے وقت
فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْھُمْ
تو مشرکوں کو مارو جہاں پاؤ
کا حکم نازل ہوا۔
لہٰذا تضرعا اورخفیۃ کے بارے میں بھی ایسا ہی تصور کیا جاسکتا ہے۔نمازِ فجر میں قرأت قرآن اور ذکر تمام دنیا کے مسلمانوں میں جہر سے معمول ہے۔ اس کو ریاکاری نہیں کہہ سکتے۔
جناب رسول خدا ﷺ سے یہ روایت بھی ہے:۔
اَفْضَلُ الذِّکْرِ خَفِیٌّ
ذکر خفی افضل ہے۔
لیکن یہ اس کو سزاوار ہےجس کی زبان پرغیر حق کی یادنہ ہو،اوراس کا دل ذاکر ہوگیا ہو۔ اس زمانے میں اکثرلوگ معاصی میں گرفتارہیں، لہٰذا ذکر جہر ہی مناسب ہے، یہاں حضور نےجس ذکر خفی کی فضیلت بیان فرمائی ہے وہ ذار کا ذکر میں فنا ہو جانا ہے؛ بلکہ ذکر ذاکر دونوں مذکور میں فنا ہوجائیں، شعور فناجاتا رہا تو دولت فناء الفناء تک رسائی ہوئی، ایسا ذکر یقیناً ذکرجہر سے افضل ہے۔
حضرت غوث العالم رحمتہ اللہ علیہ ذکر بآواز بلند کرتےتھے اوراپنے اصحاب کو بھی ذکرجہر کی تاکید بلیغ فرماتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ کے مریدین راہ، گلی، کوچہ ، بازار میں ذکر کرتے پھرتے تھے۔
بعض معاصرین نے اعتراض کیا اور اس کو بدعت قرار دیا تو حضرت نے فرمایا کہ طالب حق وسالک طریق اگر اس طرح ذکر نہ کرے تو حکم كفَاذْکُرُوااللّٰہَ قِیَاماً وَّقُعُوْداًوَّ عَلٰی جُنُوْبِکُمْکتو اللہ کی یاد کروکھڑے اور بیٹھے اور کروٹوں پر لیٹے۔
حالت قیام وقعود میں نیزلیٹ کر خدا کا ذکر کرو کی تکمیل کیونکرہو، مجلس غفلت میں بھی ذکر ترک سے اولیٰ ہے۔
حضرت غوث العالم نے رسالہ حجّۃ الذاکرین میں لکھا ہے کہ ہر فرض نماز کے بعد ذکرکرنا مستحب ہے ؛کیونکہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے:۔
فَاِذَا قَضَیْتُمُ الصَّلوٰۃَ فَاذْکُرُوااللّٰہَ قِیَامًا وَّ قُعُوْداً وَّ عَلٰی جُنُوْبِکُمْ
پھر جب تم نماز پڑھ چکو تو اللہ کی کی یاد کرو کھڑے اور بیٹھے اور کروٹوں پر لیٹے۔
یہاں پر فاءتعقب مع الوصل کے لیے ہے لہٰذا نماز کے بعد فوراً تسبیح و تکبیرمیں مشغول ہوناچاہیے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:۔
” جو شخص نماز کےبعد ہمیشہ ایک بار کلمہ پڑھاکرے الله تعالے اس کے سب گناہ معاف کرے اور تین بار پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کو بلند مراتب تک پہونچائے“
شرح کرخی میں لکھا ہے کہ:۔
” کس شخص نے حضرت امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ سے پوچھا کہ بعض لوگ نماز کے بعد کلمہ پڑھنے سے منع کرتے ہیں، تو آپ نے فرمایا کہ وہ رافضی ہیں ؛ کیونکہ نماز کے بعد کلمہ نہ پڑھناسنت کی مخالفت ہے۔ رسول اللہ ﷺ ہمیشہ نماز کے بعد باآواز بلند کلمہ پڑھتے تھے“۔
اللہ تعالی نے بندوں پر کوئی ایسافرض نہیں کیا جس کی حد نہ ہو، اور اس سے معذورین مستثنی نہ ہوں سوائے ذکر کے،جس کی کوئی حد نہیں، اور کوئی معذور معاف نہیں ، حضرت زکریا علیہ السّلام نے تین دن صوم سکوت فرمایا مگر ذکراس وقت بھی جاری تھا۔ '
لَا تُکَلِّمُ النَّاسَ ثَلٰثَۃَ اَیَّامٍ اِلَّا رَمْزاً وَاذْکُرْ رَبَّکَ کَثِیْراً وَّ سَبِّحْ بِالْعَشِیِّ وَالْاِبْکَارِ
تین دن لوگوں سے بات نہ کرے مگر اشارے اور اپنے رب کی بہت یاد کر اور تسبیح کر کچھ دن رہے اور تڑکے۔
For Contact Us
Go to Contact Page
or
Mail:contact@makhdoomashraf.com
Cal:+91-9415721972